Post By : Humaira Salman.
موجودہ میڈیا بہت اچھے پروگرام نشر کر رہا ہے خصوصاً ڈرامے جن میں سبق آموز سے لے کر رومانس تک بھر پورڈرامے پیش کیے جا رہے ہیں لیکن اس میں بچوں کے لیے کوئی سبق آموز کہانیوں پر مبنی ڈرامے یا کوئی اور پروگرام تخلیق نہیں ہو رہے ہیں اسے پروگرام جو کہ بچوں کو متاثر کر سکیں اور جو کہ بچوں کہ زہن کی اچھی نشونماکر سکے کیونکہ بچے اب تک انگریز لکھاریوں کی لکھی ہوئی کہانیاں مثلاً سنڈریلا سنو وایئٹ وغیرہ ہی پڑھتے اور دیکھتے ہیں۔
میڈیا کے نمائندوں میں اس چیز کی سمجھ زیا دہ ہے کہ کس طرح بھارتی پروگراموں کی نقل کریں یا پھر اْن کے پروگراموں کو نشر کیا جائے لیکن وہ شاید اس بات کو نظرانداز کرنے کی کوشش میں کامیاب ہیں کہ اس سے بچوں کے ننھے زہنوں میں صرف یہ اثرات ڈال رہے ہیں کہ ہندومذہب اور ہندو تہذیب آخر ہے کیا ؟ اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب آرہے ہیں۔
موجودہ میڈیا بہت اچھے پروگرام نشر کر رہا ہے خصوصاً ڈرامے جن میں سبق آموز سے لے کر رومانس تک بھر پورڈرامے پیش کیے جا رہے ہیں لیکن اس میں بچوں کے لیے کوئی سبق آموز کہانیوں پر مبنی ڈرامے یا کوئی اور پروگرام تخلیق نہیں ہو رہے ہیں اسے پروگرام جو کہ بچوں کو متاثر کر سکیں اور جو کہ بچوں کہ زہن کی اچھی نشونماکر سکے کیونکہ بچے اب تک انگریز لکھاریوں کی لکھی ہوئی کہانیاں مثلاً سنڈریلا سنو وایئٹ وغیرہ ہی پڑھتے اور دیکھتے ہیں۔
میڈیا کے نمائندوں میں اس چیز کی سمجھ زیا دہ ہے کہ کس طرح بھارتی پروگراموں کی نقل کریں یا پھر اْن کے پروگراموں کو نشر کیا جائے لیکن وہ شاید اس بات کو نظرانداز کرنے کی کوشش میں کامیاب ہیں کہ اس سے بچوں کے ننھے زہنوں میں صرف یہ اثرات ڈال رہے ہیں کہ ہندومذہب اور ہندو تہذیب آخر ہے کیا ؟ اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب آرہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment