Post By : Javeria Kamran.
کل کی بات ہے کہ میں اپنے گھر سے جامعہ جانے کے لئے بس اسٹاپ کی جانب نکلی تھوڑی سی آگے ہی بڑی تھی کہ اچانک
راستے میں مجھے بہت سا ہجوم نظر آیااس ہجوم کو دیکھ کر میں بھیِ اِس جانب بڑھ گئی یہ دیکھنے کہ آخر وہاں ہو کیا رہاہے۔میں جب وہاں پہنچی تومیں نے دیکھا کہ ایک مداری بندر کا اور بکری کا تماشا دیکھا رہاہے جودیکھنے میں بہت ہی دلچسپ اور ’پرمسرت تھا سب کی طرح میں بھی وہاں اس کاکرتب دیکھنے کھڑی ہوگئی کر تب کے درمیان آس پاس میں نے نظر گھومائی تو دیکھا کہ بچے، بڑے سب بڑا لطف لے رہے تھے اس وقت اور بڑی خوشی کا اظہار کر رہے تھے ۔ تماشا ختم ہونے کہ بعد سب اپنی اپنی خوشی سے مداری کو پیسے دے کر پھرسے اپنی مصروف اور بے حس زندگی کا حصہ بن گئے کیونکہ دنیا کا دستور ہی یہ ہی ہے کہ سب تماشا دیکھ کر خاموشی سے اپنے اپنے کاموں میں گم ہو جاتے ہیں۔میں بھی مداری کو پیسے دینے کے لئے آگے بڑی وہ اپنے پیسے جمع کرنے میں مصروف تھا میں نے اسے مخاطب کیا اور اس سے کچھ عام سے سوال کیے اس سے بات کرنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ ہمیں اور ہمارے بچوں کو خوش رکھنے والا خود اندار سے کتنا دکھی ہے اور اس کی زندگی کتنی بے رنگ ہے اور کس طرح سے پریشانیوں اسے گھیرا ہوا ہے۔اس نے بتایا کہ اس کہ گھر میں ماں باپ،بیوی اور چھ بچے ہیں جن کی کفالت کرنے والا وہ اکیلا ہے ۔اس نے کہا کہ وہ صبح سات بجے گھر سے نکل جاتا ہے اور گلیوں گلیوں گھومتا ہے اس تپتی ہوئی دھوپ میں صرف اور صر اپنی روزی کے خاطر اور اپنے بچوں کے خاطر ہمارے اور آپکے بچوں کوخوش کرتا ہے تا کہ وہ گھر اپنے بچوں کے لئے کچھ لے کر جا سکے اور ان کے چہروں پر وہ ہی مسکراہٹ لاسکے جو سارا دن ہمارے اور ہمارے بچوں کے چہروں پر لاتا ہے سارا دن کی شدید محنت کے بعد اس کو صرف ڈیڑھ سو یا دو سو روپے ملتے ہیں جس سے آج کی مہنگائی کہ دور میں گزارا کرنا ہر گز ممکن نہیں ہے جس کی وجہ سے ایک وقت کا کھانا بھی بہت مشکل ہو جا تا ہے اور اسی کے ساتھ اسے اپنے جانوروں کے کھانے کا بھی انتظام کرنا پڑتا ہے ان ہی پیسوں میں مگر وہ پھر بھی اللہ کا بار بار شکر اداکر رہا تھا کہ اس کہ کرم سے اتنا مل جاتا ہے بہت ہے اس کی یہ بات مجھے بے انتہاء پسندآئی کہ اس مشکل وقت میں بھی اس کی زبان پر صرف اللہ کا ہی زکرتھا۔ اس نے با ت کرتے ہوئے اپنی بہت ہی پیاری خواہش کا اظہار کیا کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کہ بچے اچھی تعلیم حاصل کریں اور بڑے آدمی بنے کیونکہ کہ وہ نہیں چاہتا کہ جس مشکل حالات کا سامنا وہ کر رہا ہے اس کے بچوں کو بھی کرنا پڑھے یہ بات بیان کرتے ہوئے اسکی آنکھیں نم ہوگئی پرمجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہااسیے لوگ بھی پڑھائی کو اتنی اہمیت دیتے ہیں۔اور یہ سچ بھی ہے کہ تعلیم ہماری زندگیوں میں بے انتہاء اہمیت رکھتی ہے یہ کہنا غلظ نہیں ہوگا کہ تعلیم کے بغیراس دنیامیں ہماری اپنی کوئی پہچان نہیں ہے اور ہمارے پیارے نبیﷺنے بھی فرمایا ہے کہ
علم حاصل کرو ماں کی گود سے قبر کی لحہد تک
اللہ پاک فرماتے ہیں کہ
علم حاصل کرنا ہر مسلما ن عورت پر فرض ہے
جب اللہ اپنے بندوں میں فرق نہیں کرتا تو پھر انسانوں میں فرق کیسا تعلیم پر صرف ہم جسے لوگوں کا حق نہیں بلکہ غریبوں کا بھی حق ہے۔اس مداری کی طرح کہی لوگوں کی بھی یہ ہی خواہش ہو گی کہ ان کے بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور یہ سب جب ہی ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم سب ایک ہوکر قدم بڑھائیں اور ان کی مدد کرئیں۔ اس آدمی نے مجھے ایک بات تو سکھادی کہ آدمی اپنی حیثیت سے بڑا نہیں بنتا بلکہ اپنے مضبوط ارادوں سے بڑا بنتا ہے۔اس نے کہاکہ اس کا کوئی نہیں سوائے اللہ کے جو اس کی مدد کر سکے یا اس کی خواہش کو پورا کرسکے اس کا کہنا غلظ بھی نہیں کیونکہ اللہ ہی سب کی مدد فر تا ہے پر وسیلہ وہ ہم جیسے لوگوں کو ہی بناتا ہے اس لئے ان کی مشکل کے وقت ان کی مدد کے لئے ہمیں ہی
وسیلہ بنناہے تاکہ ہم ان کے کچھ کام آسکیں۔باتوں میں وقت کیسے گزر گیاپتا ہی نہیں چلا اور اتنے میں میری بس آگئی اور میں بھی اپنی منزل کی طرف نکل پڑی پر پورے راستے اس آدمی کی باتیں میرے زہن میں گھومتی رہی اور یہ سوچتی رہی کہ کیا کوئی نہیں ہے جو ان جیسے لوگوں کی کچھ مدد کر سکے۔اس ہی سوچ میں میرے زہن میں علامہ اقبال کا بہت ہی خوبصورت کلام آیا کہ
دردِدل کے واسطے پیداکیاانسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کم نہ تھے کروبیاں
آخر انسان کو پیدا ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ ایک دسرے کے کام آسکے۔اور اسکے دنیا میں انے کا مقصد ہی یہ ہی ہے۔اگر آج ہم کسی کے کام آئیں گے اسکی مدد کا وسیلہ بنے گے تو کل کو جب ہمیں کو ئی مشکل در پیش آئے گی تو اللہ اس مشکل وقت میں ہمارے لئے کسی اور کو وسیلہ بنا کر بیجھے گا۔
کل کی بات ہے کہ میں اپنے گھر سے جامعہ جانے کے لئے بس اسٹاپ کی جانب نکلی تھوڑی سی آگے ہی بڑی تھی کہ اچانک
راستے میں مجھے بہت سا ہجوم نظر آیااس ہجوم کو دیکھ کر میں بھیِ اِس جانب بڑھ گئی یہ دیکھنے کہ آخر وہاں ہو کیا رہاہے۔میں جب وہاں پہنچی تومیں نے دیکھا کہ ایک مداری بندر کا اور بکری کا تماشا دیکھا رہاہے جودیکھنے میں بہت ہی دلچسپ اور ’پرمسرت تھا سب کی طرح میں بھی وہاں اس کاکرتب دیکھنے کھڑی ہوگئی کر تب کے درمیان آس پاس میں نے نظر گھومائی تو دیکھا کہ بچے، بڑے سب بڑا لطف لے رہے تھے اس وقت اور بڑی خوشی کا اظہار کر رہے تھے ۔ تماشا ختم ہونے کہ بعد سب اپنی اپنی خوشی سے مداری کو پیسے دے کر پھرسے اپنی مصروف اور بے حس زندگی کا حصہ بن گئے کیونکہ دنیا کا دستور ہی یہ ہی ہے کہ سب تماشا دیکھ کر خاموشی سے اپنے اپنے کاموں میں گم ہو جاتے ہیں۔میں بھی مداری کو پیسے دینے کے لئے آگے بڑی وہ اپنے پیسے جمع کرنے میں مصروف تھا میں نے اسے مخاطب کیا اور اس سے کچھ عام سے سوال کیے اس سے بات کرنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ ہمیں اور ہمارے بچوں کو خوش رکھنے والا خود اندار سے کتنا دکھی ہے اور اس کی زندگی کتنی بے رنگ ہے اور کس طرح سے پریشانیوں اسے گھیرا ہوا ہے۔اس نے بتایا کہ اس کہ گھر میں ماں باپ،بیوی اور چھ بچے ہیں جن کی کفالت کرنے والا وہ اکیلا ہے ۔اس نے کہا کہ وہ صبح سات بجے گھر سے نکل جاتا ہے اور گلیوں گلیوں گھومتا ہے اس تپتی ہوئی دھوپ میں صرف اور صر اپنی روزی کے خاطر اور اپنے بچوں کے خاطر ہمارے اور آپکے بچوں کوخوش کرتا ہے تا کہ وہ گھر اپنے بچوں کے لئے کچھ لے کر جا سکے اور ان کے چہروں پر وہ ہی مسکراہٹ لاسکے جو سارا دن ہمارے اور ہمارے بچوں کے چہروں پر لاتا ہے سارا دن کی شدید محنت کے بعد اس کو صرف ڈیڑھ سو یا دو سو روپے ملتے ہیں جس سے آج کی مہنگائی کہ دور میں گزارا کرنا ہر گز ممکن نہیں ہے جس کی وجہ سے ایک وقت کا کھانا بھی بہت مشکل ہو جا تا ہے اور اسی کے ساتھ اسے اپنے جانوروں کے کھانے کا بھی انتظام کرنا پڑتا ہے ان ہی پیسوں میں مگر وہ پھر بھی اللہ کا بار بار شکر اداکر رہا تھا کہ اس کہ کرم سے اتنا مل جاتا ہے بہت ہے اس کی یہ بات مجھے بے انتہاء پسندآئی کہ اس مشکل وقت میں بھی اس کی زبان پر صرف اللہ کا ہی زکرتھا۔ اس نے با ت کرتے ہوئے اپنی بہت ہی پیاری خواہش کا اظہار کیا کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کہ بچے اچھی تعلیم حاصل کریں اور بڑے آدمی بنے کیونکہ کہ وہ نہیں چاہتا کہ جس مشکل حالات کا سامنا وہ کر رہا ہے اس کے بچوں کو بھی کرنا پڑھے یہ بات بیان کرتے ہوئے اسکی آنکھیں نم ہوگئی پرمجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہااسیے لوگ بھی پڑھائی کو اتنی اہمیت دیتے ہیں۔اور یہ سچ بھی ہے کہ تعلیم ہماری زندگیوں میں بے انتہاء اہمیت رکھتی ہے یہ کہنا غلظ نہیں ہوگا کہ تعلیم کے بغیراس دنیامیں ہماری اپنی کوئی پہچان نہیں ہے اور ہمارے پیارے نبیﷺنے بھی فرمایا ہے کہ
علم حاصل کرو ماں کی گود سے قبر کی لحہد تک
اللہ پاک فرماتے ہیں کہ
علم حاصل کرنا ہر مسلما ن عورت پر فرض ہے
جب اللہ اپنے بندوں میں فرق نہیں کرتا تو پھر انسانوں میں فرق کیسا تعلیم پر صرف ہم جسے لوگوں کا حق نہیں بلکہ غریبوں کا بھی حق ہے۔اس مداری کی طرح کہی لوگوں کی بھی یہ ہی خواہش ہو گی کہ ان کے بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور یہ سب جب ہی ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم سب ایک ہوکر قدم بڑھائیں اور ان کی مدد کرئیں۔ اس آدمی نے مجھے ایک بات تو سکھادی کہ آدمی اپنی حیثیت سے بڑا نہیں بنتا بلکہ اپنے مضبوط ارادوں سے بڑا بنتا ہے۔اس نے کہاکہ اس کا کوئی نہیں سوائے اللہ کے جو اس کی مدد کر سکے یا اس کی خواہش کو پورا کرسکے اس کا کہنا غلظ بھی نہیں کیونکہ اللہ ہی سب کی مدد فر تا ہے پر وسیلہ وہ ہم جیسے لوگوں کو ہی بناتا ہے اس لئے ان کی مشکل کے وقت ان کی مدد کے لئے ہمیں ہی
وسیلہ بنناہے تاکہ ہم ان کے کچھ کام آسکیں۔باتوں میں وقت کیسے گزر گیاپتا ہی نہیں چلا اور اتنے میں میری بس آگئی اور میں بھی اپنی منزل کی طرف نکل پڑی پر پورے راستے اس آدمی کی باتیں میرے زہن میں گھومتی رہی اور یہ سوچتی رہی کہ کیا کوئی نہیں ہے جو ان جیسے لوگوں کی کچھ مدد کر سکے۔اس ہی سوچ میں میرے زہن میں علامہ اقبال کا بہت ہی خوبصورت کلام آیا کہ
دردِدل کے واسطے پیداکیاانسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کم نہ تھے کروبیاں
آخر انسان کو پیدا ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ ایک دسرے کے کام آسکے۔اور اسکے دنیا میں انے کا مقصد ہی یہ ہی ہے۔اگر آج ہم کسی کے کام آئیں گے اسکی مدد کا وسیلہ بنے گے تو کل کو جب ہمیں کو ئی مشکل در پیش آئے گی تو اللہ اس مشکل وقت میں ہمارے لئے کسی اور کو وسیلہ بنا کر بیجھے گا۔
No comments:
Post a Comment